اذان شعائرے دین میں سے ہے اذان کا احترام اور اذان سے محبت ہر مومن کا ایمانی تقاضا ہےاذان دینے کی ایک فضیلت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ میں یوں بیان ہوئی ہے کہ قیامت کے دن جب مؤذن اٹھیں گی ۔ ان کی گردن سب سے بلند ہوں گی۔ مؤذن کویہ فضیلت اذا ن ہی کی وجہ سے حاصل ہے۔ کیونکہ اذان ایک دعوت عامہ ہے اور جو کوئی اللہ کےلیے بندوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے۔ اذان اور بھی بہت سے فضائل ہیں۔ جن کے بارے میں آپ کو بتائیں گے ۔ آج کا اصل جو موضوع ہے وہ ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اپنی زندگی میں اذان کیوں نہ دی؟ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے ؟ وہ سب کچھ آپ کو بتائیں گے۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں کیو ں نہیں دی؟لیکن اس سے پہلے آپ کو اذان دینے اور اذان کاجواب دینے کے چند فضائل بتاتے ہیں جو کہ حدیث نبویہ ﷺ میں بیان ہوئے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے۔ اس کی مغفرت کرتی جاتی ہے۔ اور ہر خشک وتر اس کےلیے مغفرت طلب کرتا ہے اور اذان سن کر نماز کے لیے حاضر ہونے والے کے لیے پچیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور دو نمازوں کے درمیان کے گن اہ بخش دیے جاتے ہیں۔ اس روایت میں ذکر ہر خشک وتر چیز گوا ہی دے گی۔ گویااس میں جن وانس ، حیوانات، نباتات، جمادات سبھی شامل ہیں۔ کتنی بڑی فضیلت کی بات ہے ہر چیز مؤذن کے لیے مغفرت طلب کرے۔ اور مؤذن کےلیے قیامت کے دن کی گواہ بن جائے۔اس لیے چاہیے کہ ہرمسلمان زندگی میں اذان دینے کی کوشش کرے۔ تاکہ اس فضیلت کا مستحق ٹھہرے ۔ ایک دوسری حدیث کا مفہوم اس طرح سے ہے۔ کہ اگر لوگوں کو اذان دینےکا ثواب کا علم ہوجائے ۔ تو لوگ اذان دینے کےلیے ایک دوسرے سے جھگڑا کریں۔ خود ہی سوچ لیں اس کی فضیلت کا کیا عالم ہوگا؟ کہ لوگ جھگڑا کرنےسے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اب بات کرتےہیں اذان کا جواب دینے کی فضیلت کی۔ اس حوالےسے ایک روایت نے میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺمردوں اور عورتوں کی صفو ں کے درمیان کھڑے ہوگئے۔ اے عورتوں کی جماعت ! جب تم اس حبشی کی اذان اور اقامت سنو۔ تو تم بھی اسی کی طرح کہنا۔ کیونکہ ہر لفظ کے بدلے تمہارے ہزار ہزار درجے بلند کیے جائیں گے۔عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ تو عورتوں کےلیے ہے۔ مردوں کے لیے کیا اجر ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: دگنا اجر ہے۔ پھرآپ ﷺ عورتوں کی طرف متوجہ ہو ئے اور فرمایا : اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے۔ اس کا حق ادا کرتی ہے۔ اس کی اچھائی بیان کرتی ہےاور اپنے نفس اور اس کے مال خیانت نہیں کرتی ۔ تو جنت میں اس کے اور شہداء کے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہوگا۔ اگر ا س کاشوہر مومن اچھا اخلاق والا ہوگا۔ تو وہ جنت میں بھی اس کا شوہر ہوگا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اس کا نکاح شہداء میں سے کسی سے کرا دے گا۔ اب آپ کو اس سوال کا جواب بتاتے ہیں کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنی زندگی میں خود اذان کیوں نہیں دی؟ یا د رہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو وجہ کائنات بنایا ۔آپ ﷺ کی خاطر اللہ تعالیٰ اس کائنات کو پیدا فرمایا ۔ا ور اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہرچیز کو آپ ﷺ کا مطیع بنایا۔ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار معجزات عطافرمائے۔ آپﷺ کے حکم سے جھاڑیاں آپ ﷺ کے قدموںمیں آکر سجدہ کرتی تھیں۔آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ عطافرمایاکہ آپ ﷺ نے اپنی انگلی کے اشارے چاند کے دوٹکڑے کردئیے۔ الغرض آپ کے اشارے پر بے جان اور جاندار ہر طرح کی مخلوق آپ کا حکم بجالانے کو تیار ہوتی تھی۔ آپﷺ کی اسی شان کے تحت یہ کہاجاتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں اذان اس لیے نہیں دی۔ اگرآ پﷺ اپنی زندگی میں اذان دے دیتے ۔ تو اللہ کے حکم سے تمام حجر وشجر اور کائنات کی باقی مخلوقات بھی آپﷺ کی آواز پر لبیک کہتے۔ اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں خود اذان نہیں دی۔ بلکہ آپ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کی ڈیوٹی سونپی ۔
اذان شعائرے دین میں سے ہے اذان کا احترام اور اذان سے محبت ہر مومن کا ایمانی تقاضا ہےاذان دینے کی ایک فضیلت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ میں یوں بیان ہوئی ہے کہ قیامت کے دن جب مؤذن اٹھیں گی ۔ ان کی گردن سب سے بلند ہوں گی۔ مؤذن کویہ فضیلت اذا ن ہی کی وجہ سے حاصل ہے۔ کیونکہ اذان ایک دعوت عامہ ہے اور جو کوئی اللہ کےلیے بندوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے۔ اذان اور بھی بہت سے فضائل ہیں۔ جن کے بارے میں آپ کو بتائیں گے ۔ آج کا اصل جو موضوع ہے وہ ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اپنی زندگی میں اذان کیوں نہ دی؟ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے ؟ وہ سب کچھ آپ کو بتائیں گے۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں کیو ں نہیں دی؟لیکن اس سے پہلے آپ کو اذان دینے اور اذان کاجواب دینے کے چند فضائل بتاتے ہیں جو کہ حدیث نبویہ ﷺ میں بیان ہوئے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے۔ اس کی مغفرت کرتی جاتی ہے۔ اور ہر خشک وتر اس کےلیے مغفرت طلب کرتا ہے اور اذان سن کر نماز کے لیے حاضر ہونے والے کے لیے پچیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ اور دو نمازوں کے درمیان کے گن اہ بخش دیے جاتے ہیں۔ اس روایت میں ذکر ہر خشک وتر چیز گوا ہی دے گی۔ گویااس میں جن وانس ، حیوانات، نباتات، جمادات سبھی شامل ہیں۔ کتنی بڑی فضیلت کی بات ہے ہر چیز مؤذن کے لیے مغفرت طلب کرے۔ اور مؤذن کےلیے قیامت کے دن کی گواہ بن جائے۔اس لیے چاہیے کہ ہرمسلمان زندگی میں اذان دینے کی کوشش کرے۔ تاکہ اس فضیلت کا مستحق ٹھہرے ۔ ایک دوسری حدیث کا مفہوم اس طرح سے ہے۔ کہ اگر لوگوں کو اذان دینےکا ثواب کا علم ہوجائے ۔ تو لوگ اذان دینے کےلیے ایک دوسرے سے جھگڑا کریں۔ خود ہی سوچ لیں اس کی فضیلت کا کیا عالم ہوگا؟ کہ لوگ جھگڑا کرنےسے بھی گریز نہیں کریں گے۔ اب بات کرتےہیں اذان کا جواب دینے کی فضیلت کی۔ اس حوالےسے ایک روایت نے میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺمردوں اور عورتوں کی صفو ں کے درمیان کھڑے ہوگئے۔ اے عورتوں کی جماعت ! جب تم اس حبشی کی اذان اور اقامت سنو۔ تو تم بھی اسی کی طرح کہنا۔ کیونکہ ہر لفظ کے بدلے تمہارے ہزار ہزار درجے بلند کیے جائیں گے۔عمررضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ تو عورتوں کےلیے ہے۔ مردوں کے لیے کیا اجر ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: دگنا اجر ہے۔ پھرآپ ﷺ عورتوں کی طرف متوجہ ہو ئے اور فرمایا : اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے۔ اس کا حق ادا کرتی ہے۔ اس کی اچھائی بیان کرتی ہےاور اپنے نفس اور اس کے مال خیانت نہیں کرتی ۔ تو جنت میں اس کے اور شہداء کے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہوگا۔ اگر ا س کاشوہر مومن اچھا اخلاق والا ہوگا۔ تو وہ جنت میں بھی اس کا شوہر ہوگا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اس کا نکاح شہداء میں سے کسی سے کرا دے گا۔ اب آپ کو اس سوال کا جواب بتاتے ہیں کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے اپنی زندگی میں خود اذان کیوں نہیں دی؟ یا د رہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو وجہ کائنات بنایا ۔آپ ﷺ کی خاطر اللہ تعالیٰ اس کائنات کو پیدا فرمایا ۔ا ور اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہرچیز کو آپ ﷺ کا مطیع بنایا۔ آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار معجزات عطافرمائے۔ آپﷺ کے حکم سے جھاڑیاں آپ ﷺ کے قدموںمیں آکر سجدہ کرتی تھیں۔آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ عطافرمایاکہ آپ ﷺ نے اپنی انگلی کے اشارے چاند کے دوٹکڑے کردئیے۔ الغرض آپ کے اشارے پر بے جان اور جاندار ہر طرح کی مخلوق آپ کا حکم بجالانے کو تیار ہوتی تھی۔ آپﷺ کی اسی شان کے تحت یہ کہاجاتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں اذان اس لیے نہیں دی۔ اگرآ پﷺ اپنی زندگی میں اذان دے دیتے ۔ تو اللہ کے حکم سے تمام حجر وشجر اور کائنات کی باقی مخلوقات بھی آپﷺ کی آواز پر لبیک کہتے۔ اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں خود اذان نہیں دی۔ بلکہ آپ ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کی ڈیوٹی سونپی ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں