نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غزوہ بدر کی تیاری ،313 مسلمانوں اور ایک ہزار کفار کا مقابلہ، جب فرشتے مدد کو اترے


 بدر مدینہ منورہ سے 120 کلومیٹر دور ہے، یہ ایک بستی ہے جو بدر بن حارث سے منسوب ہے، اس نے یہاں کنواں کھودا تھا۔ بعض روایات کے مطابق یہ جگہ بدر بن مخلد بن نصر بن کنانہ سے منسوب ہے جس نے اِس جگہ پڑاؤ کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں وہاں ایک بوڑھا شخص مدتوں سے رہتا تھا جس کا نام بدر تھا، اِسی بنا پر اِس بستی کو اسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔جب مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع پہنچی تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مشاورت کیلئے طلب کیا،  مہاجرین نے اپنی جاں نثاری کا یقین دلایا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک پرجوش تقریر فرمائی، لیکن رسول کریم ﷺ انصار کی طرف دیکھتے رہے،  بیعتِ عقبہ میں اُن کے ساتھ یہ عہد و پیمان ہوا تھا کہ وہ رسولِ اللہ کی حفاظت اور دشمنانِ دین سے مدافعت اپنے گھروں میں کریں گے اور تلوار اُس وقت اُٹھائیں گے جب دشمن مدینہ منورہ پر چڑھ آئیں گے۔ مہاجرین کی جانب سے مکمل جاں نثاری کی یقین دہانی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا، اس موقع پر انصار میں سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ غالباً آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ، ’’ یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہ جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا، اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک بھی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ اِس پر حضور ﷺ نے اُن کے لئے دُعائے خیر فرمائی۔اس موقع پر ایک اور انصاری حضرت مقداد رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں ، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو اِس حدیثِ کے راوی ہیں‘ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا چہرہ انور خوشی سے دمکنے لگا‘ آپ خوش ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ”میں نے حضرت مقداد بن اسودؓ کی یہ ایسی نیکی دیکھی کہ اگر وہ مجھے حاصل ہوتی تو اِس کے مقابل کسی نیکی کو نہ دیکھتا۔ سب سے زیادہ مجھ کو وہ پسند ہوتی۔‘مشاورت مکمل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو تیاری کا حکم دیا۔ جس کے بعد تمام مسلمان جوش و خروش کے ساتھ جہاد کی تیاری میں لگ گئے۔  مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیر بن ابی وقاص اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جائیں۔  اس کے باوجود مجاہدین کی کل تعداد 313 سے زیادہ نہ ہو سکی۔ یہ لشکر اس شان سے میدان کارزار کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے پورے ہتھیار بھی نہ تھے۔ پورے لشکر کے پاس صرف 70 اونٹ اور 2 گھوڑے تھے جن پر باری باری سواری کرتے تھے۔ جب مدینہ سے روانہ ہونے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے منافقین اور یہودیوں کی شر انگیزی کے تدارک کیلئے حضرت ابوالبابہ بن عبدالمنذر کو مدینہ  کا خلیفہ مقرر کیا، جبکہ مدینہ کی بالائی آبادی پر حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا،  یہ انتظامات مکمل کرنے کے بعد آپ بد کی طرف بڑھے۔۔مقام بدر پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب یہ مختصر سا لشکر خیمہ زن ہوا۔ مقابلے پر تین گنا سے زیادہ لشکر تھا۔ ایک ہزار قریشی جوان جن میں سے اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے وہ اس خیال سے بدمست تھے کہ وہ صبح ہوتے ہی ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کا خاتمہ کر دیں گے لیکن قدرت کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔رات بھر قریشی لشکر عیاشی و بدمستی کا شکار رہا۔ خدا کے نبی نے خدا کے حضور آہ و زاری میں گزاری ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کیا ”اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا فرما‘ اے اللہ  اگر تیری مرضی یہی ہے تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔اس کے بعد اللہ نے اپنی رحمت نازل کی اور فتح کی بشارت دے دی۔ جس طرف مسلمانوں کا پڑاؤ تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور ریت  اتنی زیادہ تھی کہ اونٹوں اور گھوڑوں کے پاؤں ریت میں دھنس جاتے تھے،  اللہ کے حکم سے بارش ہوئی تو ریت جم گئی اور مسلمانوں کا حصہ بہتر ہوگیا، اس کے علاوہ جگہ جگہ بند لگا کر مسلمانوں نے پانی کو روک لیا اور ۔۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

”نبی پاک ﷺ نے کبھی بھی اذان کیوں نہیں دی ؟“

 اذان شعائرے دین میں سے ہے اذان کا احترام اور اذان سے محبت ہر مومن کا ایمانی تقاضا ہےاذان دینے کی ایک فضیلت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ میں یوں بیان ہوئی ہے کہ قیامت کے دن جب مؤذن اٹھیں گی ۔ ان کی گردن سب سے بلند ہوں گی۔ مؤذن کویہ فضیلت اذا ن ہی کی وجہ سے حاصل ہے۔ کیونکہ اذان ایک دعوت عامہ ہے اور جو کوئی اللہ کےلیے بندوں کو اللہ کی طرف بلاتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوتا ہے۔ اذان اور بھی بہت سے فضائل ہیں۔ جن کے بارے میں آپ کو بتائیں گے ۔ آج کا اصل جو موضوع ہے وہ ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اپنی زندگی میں اذان کیوں نہ دی؟ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے ؟ وہ سب کچھ آپ کو بتائیں گے۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی میں کیو ں نہیں دی؟لیکن اس سے پہلے آپ کو اذان دینے اور اذان کاجواب دینے کے چند فضائل بتاتے ہیں جو کہ حدیث نبویہ ﷺ میں بیان ہوئے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ مؤذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے۔ اس کی مغفرت کرتی جاتی ہے۔ اور ہر خشک وتر اس کےلیے مغفرت طلب کرتا ہے اور اذان سن کر نماز کے لیے حاضر ہونے والے کے لیے پچیس نیکیاں لکھی جات

مردان کی طالبہ کے گیارہ سو میں 1100نمبر

  ویب ڈیسک (مردان)آ گئے مرد میدان مردان کے ،پشاور،ایبٹ آباد ،سوات بورڈز کا ریکارڈ چکنا چو ر جبکہ مردان بورڈ سے امتحان دینے والی ریکارڈ ہولڈر نے آئندہ کے لئے اپنا ریکارڈ توڑنے کی راہ بھی بند کردی ۔ مردان کی ہونہار طالبہ قندیل دخترسہیل احمد نے سب کو پچھاڑ کر میڑک کے امتحان میں گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر حاصل کرکے تعلیمی بورڈ میں نیا ریکارڈ قائم کرلیاجبکہ پشاور،سوات اور ایبٹ آباد میں1098نمبر کی پہلی پوزیشن کو مردان بورڈکے تین امیدواروں نے دوسری پوزیشن ثابت کردیا جنہوں نے انفرادی طور پر1098 نمبر حاصل کئے۔ میٹرک میں تیسری پوزیشن بیک وقت58 طلبہ نے حاصل کی جو الگ سے ریکارڈ ہے ۔

امریکہ سے ایسے تعلقات نہیں چاہتے کہ وہ پیسے دے اور کام کرائے،عمران خان

 اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک /آن لائن) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان کو غیرملکی فوج کے ذریعے کنٹرول نہیں کیاجاسکتا،طالبان عالمی سطح پر خود کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ امریکہ سے ایسے تعلقات نہیں چاہتے کہ وہ پیسے دے اور کام کرائے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عدم استحکام کے نتیجے میں افغانستان سے پھر دہشت گردی کا خطرہ جنم لے گا، افغانستان کیصورتحال پریشان کن ہے، افغانستان کو بھی دہشت گردی کا سامنا ہوسکتا ہے عالمی برادری افغانستان کی مدد کرئے،افغانستان کو غیر ملکی فوج کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، موجودہ حالات میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی کہ وہاں کیا ہونیوالا ہے، افغانستان کی خواتین بہت بہادر اور مضبوط ہیں، وقت دیا جائے وہ اپنے حقوق حاصل کر لیں گی۔ امریکی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال پریشان کن اور وہ اس وقت ایک تاریخی موڑ پر ہے، اگر وہاں 40سال بعد امن قائم ہوتا ہے اور طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول کے بعد ایک جامع حکومت کے قیام کے لیے کام کرتے ہیں اور تمام دھڑوں کو ملاتے ہیں تو افغانستان میں 40سال بعد امن ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ