بدر مدینہ منورہ سے 120 کلومیٹر دور ہے، یہ ایک بستی ہے جو بدر بن حارث سے منسوب ہے، اس نے یہاں کنواں کھودا تھا۔ بعض روایات کے مطابق یہ جگہ بدر بن مخلد بن نصر بن کنانہ سے منسوب ہے جس نے اِس جگہ پڑاؤ کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں وہاں ایک بوڑھا شخص مدتوں سے رہتا تھا جس کا نام بدر تھا، اِسی بنا پر اِس بستی کو اسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔جب مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع پہنچی تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مشاورت کیلئے طلب کیا، مہاجرین نے اپنی جاں نثاری کا یقین دلایا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک پرجوش تقریر فرمائی، لیکن رسول کریم ﷺ انصار کی طرف دیکھتے رہے، بیعتِ عقبہ میں اُن کے ساتھ یہ عہد و پیمان ہوا تھا کہ وہ رسولِ اللہ کی حفاظت اور دشمنانِ دین سے مدافعت اپنے گھروں میں کریں گے اور تلوار اُس وقت اُٹھائیں گے جب دشمن مدینہ منورہ پر چڑھ آئیں گے۔ مہاجرین کی جانب سے مکمل جاں نثاری کی یقین دہانی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا، اس موقع پر انصار میں سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ غالباً آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ، ’’ یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہ جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا، اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک بھی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ اِس پر حضور ﷺ نے اُن کے لئے دُعائے خیر فرمائی۔اس موقع پر ایک اور انصاری حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں ، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو اِس حدیثِ کے راوی ہیں‘ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا چہرہ انور خوشی سے دمکنے لگا‘ آپ خوش ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ”میں نے حضرت مقداد بن اسودؓ کی یہ ایسی نیکی دیکھی کہ اگر وہ مجھے حاصل ہوتی تو اِس کے مقابل کسی نیکی کو نہ دیکھتا۔ سب سے زیادہ مجھ کو وہ پسند ہوتی۔‘مشاورت مکمل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو تیاری کا حکم دیا۔ جس کے بعد تمام مسلمان جوش و خروش کے ساتھ جہاد کی تیاری میں لگ گئے۔ مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیر بن ابی وقاص اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جائیں۔ اس کے باوجود مجاہدین کی کل تعداد 313 سے زیادہ نہ ہو سکی۔ یہ لشکر اس شان سے میدان کارزار کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے پورے ہتھیار بھی نہ تھے۔ پورے لشکر کے پاس صرف 70 اونٹ اور 2 گھوڑے تھے جن پر باری باری سواری کرتے تھے۔ جب مدینہ سے روانہ ہونے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے منافقین اور یہودیوں کی شر انگیزی کے تدارک کیلئے حضرت ابوالبابہ بن عبدالمنذر کو مدینہ کا خلیفہ مقرر کیا، جبکہ مدینہ کی بالائی آبادی پر حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، یہ انتظامات مکمل کرنے کے بعد آپ بد کی طرف بڑھے۔۔مقام بدر پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب یہ مختصر سا لشکر خیمہ زن ہوا۔ مقابلے پر تین گنا سے زیادہ لشکر تھا۔ ایک ہزار قریشی جوان جن میں سے اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے وہ اس خیال سے بدمست تھے کہ وہ صبح ہوتے ہی ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کا خاتمہ کر دیں گے لیکن قدرت کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔رات بھر قریشی لشکر عیاشی و بدمستی کا شکار رہا۔ خدا کے نبی نے خدا کے حضور آہ و زاری میں گزاری ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کیا ”اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا فرما‘ اے اللہ اگر تیری مرضی یہی ہے تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔اس کے بعد اللہ نے اپنی رحمت نازل کی اور فتح کی بشارت دے دی۔ جس طرف مسلمانوں کا پڑاؤ تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور ریت اتنی زیادہ تھی کہ اونٹوں اور گھوڑوں کے پاؤں ریت میں دھنس جاتے تھے، اللہ کے حکم سے بارش ہوئی تو ریت جم گئی اور مسلمانوں کا حصہ بہتر ہوگیا، اس کے علاوہ جگہ جگہ بند لگا کر مسلمانوں نے پانی کو روک لیا اور ۔۔۔
بدر مدینہ منورہ سے 120 کلومیٹر دور ہے، یہ ایک بستی ہے جو بدر بن حارث سے منسوب ہے، اس نے یہاں کنواں کھودا تھا۔ بعض روایات کے مطابق یہ جگہ بدر بن مخلد بن نصر بن کنانہ سے منسوب ہے جس نے اِس جگہ پڑاؤ کیا تھا۔ بعض کہتے ہیں وہاں ایک بوڑھا شخص مدتوں سے رہتا تھا جس کا نام بدر تھا، اِسی بنا پر اِس بستی کو اسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔جب مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع پہنچی تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مشاورت کیلئے طلب کیا، مہاجرین نے اپنی جاں نثاری کا یقین دلایا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک پرجوش تقریر فرمائی، لیکن رسول کریم ﷺ انصار کی طرف دیکھتے رہے، بیعتِ عقبہ میں اُن کے ساتھ یہ عہد و پیمان ہوا تھا کہ وہ رسولِ اللہ کی حفاظت اور دشمنانِ دین سے مدافعت اپنے گھروں میں کریں گے اور تلوار اُس وقت اُٹھائیں گے جب دشمن مدینہ منورہ پر چڑھ آئیں گے۔ مہاجرین کی جانب سے مکمل جاں نثاری کی یقین دہانی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا، اس موقع پر انصار میں سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ غالباً آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ، ’’ یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہ جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث کیا، اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک بھی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ اِس پر حضور ﷺ نے اُن کے لئے دُعائے خیر فرمائی۔اس موقع پر ایک اور انصاری حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں ، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو اِس حدیثِ کے راوی ہیں‘ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا چہرہ انور خوشی سے دمکنے لگا‘ آپ خوش ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ”میں نے حضرت مقداد بن اسودؓ کی یہ ایسی نیکی دیکھی کہ اگر وہ مجھے حاصل ہوتی تو اِس کے مقابل کسی نیکی کو نہ دیکھتا۔ سب سے زیادہ مجھ کو وہ پسند ہوتی۔‘مشاورت مکمل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو تیاری کا حکم دیا۔ جس کے بعد تمام مسلمان جوش و خروش کے ساتھ جہاد کی تیاری میں لگ گئے۔ مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیر بن ابی وقاص اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جائیں۔ اس کے باوجود مجاہدین کی کل تعداد 313 سے زیادہ نہ ہو سکی۔ یہ لشکر اس شان سے میدان کارزار کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے پورے ہتھیار بھی نہ تھے۔ پورے لشکر کے پاس صرف 70 اونٹ اور 2 گھوڑے تھے جن پر باری باری سواری کرتے تھے۔ جب مدینہ سے روانہ ہونے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے منافقین اور یہودیوں کی شر انگیزی کے تدارک کیلئے حضرت ابوالبابہ بن عبدالمنذر کو مدینہ کا خلیفہ مقرر کیا، جبکہ مدینہ کی بالائی آبادی پر حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، یہ انتظامات مکمل کرنے کے بعد آپ بد کی طرف بڑھے۔۔مقام بدر پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب یہ مختصر سا لشکر خیمہ زن ہوا۔ مقابلے پر تین گنا سے زیادہ لشکر تھا۔ ایک ہزار قریشی جوان جن میں سے اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے وہ اس خیال سے بدمست تھے کہ وہ صبح ہوتے ہی ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کا خاتمہ کر دیں گے لیکن قدرت کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔رات بھر قریشی لشکر عیاشی و بدمستی کا شکار رہا۔ خدا کے نبی نے خدا کے حضور آہ و زاری میں گزاری ۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ کہ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ اَقدس میں عرض کیا ”اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا فرما‘ اے اللہ اگر تیری مرضی یہی ہے تو پھر زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔اس کے بعد اللہ نے اپنی رحمت نازل کی اور فتح کی بشارت دے دی۔ جس طرف مسلمانوں کا پڑاؤ تھا وہاں پانی کی کمی تھی اور ریت اتنی زیادہ تھی کہ اونٹوں اور گھوڑوں کے پاؤں ریت میں دھنس جاتے تھے، اللہ کے حکم سے بارش ہوئی تو ریت جم گئی اور مسلمانوں کا حصہ بہتر ہوگیا، اس کے علاوہ جگہ جگہ بند لگا کر مسلمانوں نے پانی کو روک لیا اور ۔۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں